عرفان جاویدکی کتاب سرخاب سے لئے گئےاقتباسات

www.UrduNazam-o-Nasar/اُردونظم و نثر.com

https://pkurdufsd.blogspot.com/
اقتباس  نمبر1
غالباً یہ اُنھی(امجد اسلام امجد)سے وابستہ حکایت ہےکہ کسی مشاعرےمیں ایک فربہ شاعر  سٹیج  پربیٹھے بیٹھے کچھ یوں سو گئے کہ  ان کا منہ 
کھلاتھا،ٹانگیں پھیلی  ےتھیں اورخراٹوں کے باعث جسم لرز رہا تھا۔امجد صاحب نے ساتھ بیٹھے شاعرکےکان میں مذکورہ شاعر کی جانب ا ِشارہ 
کرتے ہوئے کہا"اُدھردیکھیں۔یوں نہیں لگتاجیسے کسی گینڈے کو گولی لگی ہو۔"یہ سُن کر شاعر کے اندر سے ہنسی کاایک گولہ چھوٹ  اور وہ بے اختیار ہوکر منہ پر ہاتھ رکھے سٹیجسے چلے گئے۔
اقتباس نمبر2
الحمرہ ہی میں ایک ذاتی نشست کےدوران سنانے لگے"میری محبت والی نظمیں بہت مقبول تھیں۔جب بھی کسی نشست یا مشاعرےمیں جانا ہوتا تو 
اننظموں کاتقاضا زور پکڑ لیتا۔جب میں وہ نظمیں سناتا تو بہت داد ملتی ۔جب میرے بچے بڑے ہو رہے تھے تو میں نے فیصلہ کیاکہ میں ایسی 
نظمیں  پڑھنے سےحتیٰ الوسیع گریز کروں گا۔اُنھی دنوں لڑکیوں کےمعروف کنئیرڈ کالج میں مجھے مدعو کیا گیا۔وہاں کی اساتذہ میں میری ایک
 کلاس فیلو بھی تدریسسے وابستہ تھی۔حسبِ معمول مجھ سے اپنی مشہور نظم"ایک لڑکی" سنانے کی فرمائش کی گئی۔میں نےٹال دیا۔اصرار بڑھا۔
اس میں میری کلاس فیلو بھیشامل ہو گئی۔لٰہذا میں نےاپنی نظم پڑھنی شروع کی۔سامنے کالج کی لڑکیاں،آنکھوں میں خواب اور ستارے سجائے 
بہت اشتیاق سے میری نظم سننے لگیں۔میں نے ابتدائی بول سنائے"گلاب چہرے پہ مسکراہٹ،چمکتی آنکھوںمیں شوخ جذبے،وہ جب بھی کالج کی 
سیڑھیوں سے  سہیلیوں کو لئےاترتی"میں نے آخری مصرے  کو زور دے کر پڑھا "تو ایسے لگتا تھا جیسے دِل میں اتر رہی ہو"تو سامنے بیٹھی ایک 
لڑکی نے بے ساختہ سوال کردیا"سہیلیوں سمیت؟"مجھے آج تک اُس لڑکی کاوہ بہ یک وقت حسرت بھرا ،شوخ اور بے ساختہ سوال نہیں بھولا۔"

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے