ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب جوک در جوک سے لیا گیامزاحیہ اقتباس

www.UrduNazam-o-Nasar/اُردونظم و نثر.com

بادام اور بے دام     

 

      ہمارےہاں تین طرح کے سیاست دان ہیں نمبر 1 پہلی طرح کے،نمبر2 دوسری طرح کے،نمبر3 ہر طرح کےجبکہ اصغر خان صاحب ہمارے اپنی ہی طرح کے سیاست دان ہیں ان کاقد ان کی پارٹی سے کئی انچ بڑا ہے۔ہم نے عبادت کو سیاست بنایاپر انھوں نے سیاست کو عبادت بنایا۔وہ اپنی مثال آپ ہیں بلکہ دوسروں کی مثال بھی آپ ہی ہیں وہ ووٹروں کوکبھی مایوس نہیں کرتے جب بھی کرتے ہیں   ووٹر کرتے ہیں۔انھیں الیکشن لڑنے میں جیتنے کا کبھی خطرہ نہیں ہوتاجیسے چھٹی دہائی میں سائنس دان غلام محمد موجد نے ایٹم بمایجادکیااوراپنے ایجاد کردہ  ایٹم بم کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی کہ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے انسان کو کوئی خطرح نہیں ہو سکتا کہ یہ وہ بم ہے جو چلتا نہیں۔بہرحال اصغر خان صاحب نے کہا  ہے میں  صدارتی الیکشن اس لئے لڑ 
رہا ہوں کہ ملک کاسستا ترین الیکشن ہے
       سیاست سستی ہوئی لیکن پٹرول اور سیاست دانوں کی قیمتیں  اتنی بڑی ہیں کہ آسمان کوان سے باتیں کرنے     کے لئےاوپر جانا پڑتا ہےویسے تو سب سے زیادہ پیسے سستی شہرت  حاصل کرنے میں ہی لگتے ہیں۔ سستا ترین الیکشن کتنا مہنگا  پڑتا ہے اس کاہمیں اندازہ نہیں۔وہ دام ِ سیاست میں بے دام  آنا  چاہتے ہیں۔ایک باربی بی سی کانمائندہ عبدالغفار خان کا انٹرویو کرنے آیا خان صاحب نے کہا :دیکھو اگر تم ادب یا شاعری  کی بات کرنا چاہتے ہو تو میرے بیٹے غنی سے  کرو 'اگرسیاست پر بات کرنا چاہتےہو تو ولی خان سےکر سکتے ہواور اگر کوئی کام کی بات کرنا چاہتے ہوتومیرے ساتھ کرلو۔اگرچہ اس کا راوی بڑا ضعیف ہے۔یعنی اسّی نوّے سال کا ہےویسے بھی اردو میں راوی کہتا ہےاور پنجابی  میں راوی بہتا ہے۔راوی کہتا ہےاگر بادام کی بات کرنا ہے تو صدر اسحاق ہیں جو اس عمرمیں بھی منہ سے بادام اور اسمبلی توڑ سکتے ہیں'دام میں آنا ہے  تو اور بہت ہیں البتہ بے دام اصغرخان ہی ہیں۔خان صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جیسے ایک شخص نےکہا "آج بارش ہوگی؟"واقعی اس دن بارش ہوئی کسی نے پوچھا"آپ کوکیسے پتہ چلا؟ہوا سے،پرندوں کےطور طریقوں سےیا آسمان کے ستاروں سے اندازہ لگایا ہے؟"کہا نہیں !بہت آسان طریقہ ہے جس دن میں اپنے کھیت کو پانی لگاتا ہوں اسی دن بارش ہو جاتی ہے یوں انھوں نے ہرالیکشن بڑی کامیابی سے ہارا۔صرف 1993ء کا عام الیکشن نہ ہارے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ الیکشن بڑے شفّاف تھےاور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ الیکشن  میں کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ان کا سیاست میں بڑا تجربہ ہے پر تجربہ وہ کنگھی ہے جو زندگی ہمیں اس وقت دیتی ہے جب ہمارے بال جھڑ چکے ہوتے ہیں۔        

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے