صدائے بُلبل-پیارا پاکستن

www.UrduNazam-o-Nasar/اُردونظم و نثر.com

https://pkurdufsd.blogspot.com/2020/08/blog-post_14.html

صدائے بلبل
                                                             

                                                                      پیارا پاکستان


؎   وہ شمع کیا بجھےجسے روشن  خدا کرے

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ارضِ پاکستان  جیسی نعمت بہت دُعاؤں اور قربانیوں کے بعد عطا کی۔اس عرضِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے تمام قدرتی نعمتوں سے مالامال  کیا ہے ۔کون سی ایسی نعمت ہے  جو ارضِ پاک  میں نہیں ،ہر قسم کی دھاتیں ، معدنیات ،موسم،فصلیں،سر سبزو شاداب میدان،دُنیا کے خوبصورت،طویل اوربُلندپہاڑی سلسلےاس خطۂ پاک  میں موجود ہیں ۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات  قدرتی طور پر حسین ہیں حالانکہ ان علاقوں کی خوشحالی اور بہبود کے لئے  حکومت کی طرف سے کوئی خاص گرانٹ مختص نہیں کی جاتی مگر پھر بھی ان کا حسن دیدنی ہے۔

اگر پاکستانیوں کو دیکھیں تو ان میں باصلاحیت افراد  کی بھی کمی نہیں ۔پاکستان میں دُنیا کے بہترین سائنسدان ،انجینئر،مؤجد،فلسفی،سیاستدان،ہنر مند،دستکار،منتظمین  موجود ہیں جنھوں نے دُنیا بھرمیں اپنے کا م کی وجہ سے اس ملک کا نام روشن کیا ۔اتنی باصلاحیت قوم  کو  کسی دوسری قوم کی پیروی کی  کیا ضرورت ہے؟ تو پھر کیوں  غیر ملکی انجینئرز  کو کسی بھی اہم کام کے لئے بلایا جاتا ہے ۔کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ معدنی ذخائر تک رسائی حاصل ہو سکے۔یہ سب ہیلے بہانے  ہیں ۔

 صوبہ بلوچستان میں ایسی ہی سورتحال ہے۔کیونکہ وہاں کے قبائلی سردار اس خطے کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے ان ذخائر پر قابض ہیں اور من مانی کاروایئاں کرکے ملک وقوم کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ۔

رپورٹس کے مطابق پاکستان میں سونے کے تین بڑے ذخائر موجود ہیں:

1.    ریکوڈک(بلوچستان)


2.    سینڈک(بلوچستان)


3.    چنیوٹ(پنجاب)


ریکوڈک سونے اور چاندی کے ذخائر کے حوالے سے دُنیا کا دوسرا بڑاخطہ ہے۔ایک محتاط اندازے  کے مطابق یہاں 2کروڑ 9لاکھ اونس سونے  کے ذخائرموجود ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اگر یہاں کی ایک کان سے متواترسونا نکالا جائے تو کم و بیش نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا ۔

اس کے علاوہ اگر پاکستان کی سمندری حدود کو دیکھا جائے تو بھی پاکستان  کی سمندری حدود خلیج فارس کے ساتھ ملتی ہیں یہ چین اور جنوبی ایشیاء کا داخلی راستہ ہے۔پاکستان روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحر ِ ہند اور بحیرہ عرب  تک رسائی دیتا ہے۔پاکستان جغرافیائی اہمیت کا حامل خطہ ہے جس پر دُنیا کی تین بڑی سپر پاورز انحصار کرتی ہیں۔

کراچی کی بندر گاہ دُنیا کی اہم بندر گاہ ہے  گوادرسی پیک منصوبہ جو چائنہ کے اشتراک سےمکمل کیا جارہا ہے یہ پاکستان  کی بحری برآمدات ودرآمدات کااہم  ذریعہ ہے جو 46 میلن ڈالرز کی لاگت سے مکمل ہو گا۔جو چین ،پاکستان تجارتی راہداری ثابت ہو گا۔یہ ایران،عراق،سعودیہ،دُبئی جیسے تیل کی نعمت سے مالا مال اسلامی ممالک  سے تجارت میں بھی اہم ثابت  ہو گااور  انشاءاللہ ایک عالمی منڈی ثابت ہو گی۔

اگر  زراعت کی بات کی جائے تو پاکستان بنیادی طورپر زرعی ملک ہےاورزراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔پاکستان میں تازہ پھل اور سبزیوں کے علاوہ ڈرائی فروٹ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہےزراعت پاکستان  کی معیشت کو مستحکم بنانے اور بین الاقوامی تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

پنجاب کا نہری نظام دُنیا کا بہترین نظامِ آب پاشی ہےجو ہر قسم کی فصلوں کی کاشت اور بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہار،خزاں،گرمی،سردی جیسے مختلف موسموں سے نوازا ہےجو فصلوں اور انسانوں ہر دو کے لئے بہت اہم ہیں۔یہاں کی آب و ہوا ہر طرح کی اجناس کے لئےبہترین ہے۔

پاکستان میں پنجاب کی زرعی یونیورسٹی،فیصل آباددُنیا کی اہم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہےجہاں مختلف زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لئےکامیاب تجربات کئے جاتے ہیں۔یہ ایشیا میں چوتھےنمبر پر ہے۔پاکستان کی اہم اجناس کپاس ،گندم،چاول،گنّا ہیں ان اجناس کی وجہ سے کپڑے کی ملز،وہیٹ ملز،رائس ملزاورشوگر ملزکا قیام عمل میں آیا جو پاکستان کی اہم انڈسٹریز ہیں اس سے مقامی آبادی کو بھی روزگار مہیا ہوتا ہےاور بیرونِ ملک برآمدات سے بھی زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

زراعت کی بدولت یہاں کاخطہ سرسبزو شاداب ہےاسی کی بدولت مویشیوں کے لئے چارے کا بھی انتظام ہوتا ہےجو جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہےاس طرح ڈیری فارمنگ اور لیدر انڈسٹری کو تقویت ملتی ہے۔ہمارے جانور،ان کی کھال اوردودھ سےبنی اشیاء بھی اہم برآمدات میں شامل ہیں۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جس خطّے کو قدرت نے اتنی فراوانی سے اپنی نعمتوں سے نوازا ہو ،اسے کسی بھی ملک کا محتاج ہونے کی کیا ضرور ت ہے ۔یہاں ہمیں غور وفکر کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر کیا خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم غیر مسلم اقوام کے زیرِنگیں ہیں یہ ہمارےسیاستدانوں کا لالچ ہے یا پھر ہم غیر مسلم اقوام کی ظاہری ترقی سےمرعوب ہو  کر اپنے ملک کے ذخائر کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے اگر لیڈر حضرات اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو نظر انداز کرکے ملکی فلاح و بہبود  اور سالمیت کے لئے کام کریں تودُنیا کی کوئی طاقت پاکستا ن کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکتی۔ضرورت خود کو پہچاننے کی ہے۔

قائدِ ملت کا یہ قول ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہے:


                        ”پاکستان  کی سر زمین میں زبردست خزانے چُھپے ہوئےہیں 

                         مگراس ملک کو ایک مسلمان  کے رہنے کے قابل بنانے کے

                        لئے اپنی قوت اور محنت کے زبردست ذخیرے کا ایک ایک

                         ذرہ صرف کرنا پڑے گا“۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے